یہاں تک کی تقریر میں جو بُنیادی نکات عیسائیوں کے
سامنے پیش کیے گئے ہیں اُن کا خلاصہ علی الترتیب حسبِ ذیل ہے: پہلا امر جو ان کے ذہن نشین کرنے کی کوشش کی گئی ہے یہ
ہے کہ مسیح کی اُلوہیت کا اعتقاد تمہارے اندر جن وجُوہ
سے پیدا ہوا ہے ، ان میں سے کوئی وجہ بھی ایسے اعتقاد کے لیے صحیح نہیں ہے۔
ایک انسان تھا جس کو اللہ نے اپنی مصلحتوں کے تحت مناسب سمجھا کہ غیر
معمُولی صورت سے پیدا کرے اور اسے ایسے معجزے عطاکرے جو نبوّت کی صریح
علامت ہوں، اور منکرینِ حق کو اسے صلیب پر نہ چڑھانے دے بلکہ اس کو اپنے
پاس اُٹھالے۔ مالک کو اختیار ہے ، اپنے جس بندے کو جس طرح چاہے استعمال
کرے۔ محض اس غیر معمولی برتا ؤ کو دیکھ کر یہ نتیجہ
نکالنا کیسے صحیح ہو سکتا ہے کہ وہ خود مالک تھا، یا مالک کا بیٹا تھا، یا
ملکیّت میں اس کا شریک تھا۔ دُوسری اہم بات جو ان کو سمجھائی
گئی ہے وہ یہ ہے کہ مسیح جس چیز کی طرف دعوت دینے آئے تھے وہ وہی چیز ہے جس
کی طرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم دعوت دے رہے ہیں ۔ دونوں کے مِشن میں یک سر
مو فرق نہیں ہے۔
|