اس رکوع کو چھاپیں

سورة ال عمران حاشیہ نمبر۲

عام طور پر لوگ تورات سے مراد بائیبل کے پرانے عہد نامے کی ابتدائی پانچ کتابیں اور انجیل سے مراد نئے عہد نامے کی چار مشہور انجیلیں  لے لیتے ہیں۔  اس وجہ سے یہ اُلجھن پیش آتی ہے کہ کیا فی الواقع یہ کتابیں کلامِ الٰہی ہیں؟ اور کیا واقعی قرآن اُن سب باتوں کی تصدیق کرتا ہے جوا ن میں درج ہیں؟ لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ تورات بائیبل کی پہلی پانچ کتابوں کا نام نہیں ہے، بلکہ وہ اُن کے اندر مندرج ہے ، اور انجیل نئے عہد نامہ کی اناجیل اربعہ کا نام نہیں ہے ، بلکہ وہ ان کے اندر پائی جاتی ہے۔

دراصل تورات سے مراد وہ احکام ہیں ، جو حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی بعثت سے لے کر ان کی وفات تن تقریباً چالیس سال کے دَوران میں اُن پر نازل ہوئے۔ اُن میں سے دس احکام تو وہ تھے، جو اللہ تعالیٰ نے پتھر کی لوحوں پر کندہ کر کے انہیں دیے تھے۔ باقی ماندہ احکام کو حضرت موسیٰ  نے لکھوا کر اس کی ١۲ نقلیں بنی اسرائیل کے ١۲ قبیلوں کو دے دی تھیں اور ایک نقل بنی لاوِی کے حوالے کی تھی تاکہ وہ اس کی حفاظت کریں۔ اسی کتاب کا نام ” تورات“ تھا۔ یہ ایک مستقل کتاب کی حیثیت سے بیت المقدس کی پہلی تباہی کے وقت تک محفوظ تھی۔ اس کی ایک  کاپی جو بنی لاوی کے حوالے کی گئی تھی، پتھروں کی لوحوں سمیت، عہد کے صندوق میں رکھ دی گئی تھی اور بنی اسرائیل  اس کو ”توریت“ ہی کے نام سے جانتے تھے۔ لیکن اُس سے ان کی غفلت اس حد کو پہنچ چکی تھی کہ یہودیہ کے بادشاہ یوسیاہ کے عہد میں جب ہیکلِ سلیمانی کی مرمت ہوئی تو اتفاق سے سردار کاہن  (یعنی ہیکل کے سجادہ نشین اور قوم کے سب سے بڑے مذہبی پیشوا) خِلقیاہ کو ایک جگہ توریت رکھی ہوئی مل گئی اور اس نے ایک عجوبے کی طرح اسے شاہی منشی کو دیا اور شاہی منشی نے اسے لے جا کر بادشاہ کے سامنے اس طرح پیش کیا، جیسے ایک عجیب انکشاف ہوا ہے(ملاحظہ ہو ۲-سلاطین، باب ۲۲-آیت ۸ تا ١۳)۔ یہی وجہ ہے کہ جب بخت نَصَّر نے یروشلم فتح کیا اور ہیکل  سمیت شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ، تو بنی اسرائیل نے تورات کے وہ اصل نسخے ، جو ان کے ہاں طاقِ نسیاں پر رکھے ہوئے تھے اور بہت تھوڑی تعداد میں تھے، ہمیشہ کے لیے گم کر دیے۔ پھر جب  عَزر اکاہن  (عُزیر ) کے زمانے میں بنی اسرائیل کے بچے کھُچے لوگ بابل کی اسیری سے واپس یروشلم آئے اور دوبارہ بیت المَقدِس تعمیر ہوا، تو عَزرا نے اپنی قوم کے چند دُوسرے بزرگوں کی مدد سے بنی اسرائیل کی پوری تاریخ مرتب کی، جو اب بائیبل کی پہلی ١۷ کتابوں پر مشتمل ہے۔ اس تاریخ کے چار باب، یعنی خروج ، اَحبار، گَنتی اور اَستثنا ، حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی سیرت پر مشتمل ہیں اور اس سیرت ہی میں تاریخ َ نزول کی ترتیب کے مطابق تورات کی وہ آیات بھی حسب موقع درج کر دی گئی ہیں، جو عَزر ا اور ان کے مددگار بزرگوں کو دستیاب ہو سکیں۔ پس دراصل اب تورات اُن منتشر اجزا کا نام ہے ، جو سیرتِ موسیٰ علیہ السّلام کے اندر بکھرے ہوئے ہیں۔ ہم انہیں صرف اِس علامت سے پہچان سکتے ہیں کہ اِس تاریخی بیان کے دَوران میں جہاں کہیں سیرت ِ موسوی کا مصنف کہتا ہے کہ خدا نے موسیٰ سے یہ فرمایا، یا موسیٰ نے کہا کہ خداوند تمہارا خدا یہ کہتا ہے ، وہاں سے تورات کا ایک جُز شروع ہوتا ہے اور جہاں پھر سیرت کی تقریر شروع ہو جاتی ہے، وہاں وہ جُز ختم  ہوجاتا ہے۔ بیچ  میں جہاں کہیں کوئی چیز بائیبل  کے مصنف نے تفسیر و تشریح کے طور پر بڑھا دی ہے ، وہاں ایک عام آدمی کے لیے یہ تمیز کرنا مشکل ہے کہ ایا یہ اصل تورات کا حصّہ ہے، یا شرح و تفسیر۔ تاہم جو لوگ کتب آسمانی میں بصیرت رکھتے ہیں، وہ ایک حد تک صِحت کے ساتھ یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ ان اجزا میں کہاں کہاں تفسیر ی و تشریحی اضافے ملحق کر دیے گئے ہیں۔

قرآن انھیں منتشر اجزا کو ”تورات“کہتا ہے، اور انھیں کی وہ تصدیق کرتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ  ان اجزا کو جمع کر کے جب قرآن سے ان کا مقابلہ کیا جاتا ہے ، تو بجز اس کے کہ بعض بعض مقامات پر جُزوی احکام میں اختلاف ہے، اُصُولی تعلیمات میں دونوں کتابوں کے درمیان ایک سرِ مو فرق نہیں پایا جاتا۔ آج بھی ایک ناظر  صریح طور پر محسُوس کر سکتا ہے کہ یہ دونوں چشمے ایک ہی منبع سے نکلے ہوئے ہیں۔

اسی طرح انجیل دراصل نام ہے اُسن الہامی خطبات اور اقوال کا ، جو مسیح علیہ السّلام نے اپنی زندگی کے آخری ڈھائی تین برس میں بحیثیت ِ نبی ارشاد فرمائے۔ وہ کلماتِ طیّبات آپ کی زندگی میں لکھے اور مرتب کیے گئے تھے یا نہیں، اس کے متعلق اب ہمارے پاس کوئی ذریعہٴ معلومات نہیں ہے۔ممکن ہے بعض لوگوں نے انھیں نوٹ کر لیا ہو، اور ممکن ہے کہ سُننے والے معتقدین نے ان کو زبانی  یاد رکھا ہو۔ بہر حال ایک مدّت کے بعد جب آنجناب کی سیرتِ پاک پر مختلف رسالے لکھے گئے ، تو ان میں تاریخی بیان کے ساتھ  ساتھ وہ خطبات اور ارشادات بھی جگہ جگہ حسبِ موقع درج کر دیے گئے ، جو ان رسالوں کے مصنفین تک زبانی روایات اور تحریری یادداشتوں کے ذریعے سے پہنچے تھے۔ آج متی، مرقس، لوقا اور یُوحنا کی جن کتابوں کو اناجیل کہا جاتا ہے ، دراصل انجیل وہ نہیں ہیں، بلکہ انجیل حضرت مسیح کے وہ ارشادات ہیں ، جو ان کے اندر درج ہیں۔ ہمارے پاس ان کو پہچاننے اور مصنفین ِ سیرت کے اپنے کلام سے ان کو ممیز کرنے کا اس کے سوا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ جہاں سیرت کا مصنف کہتا ہے کہ مسیح نے یہ فرمایا یا لوگوں کو یہ تعلیم دی، صرف وہی مقامات اصل انجیل کے اجزا ہیں۔ قرآن انہیں اجزا  کے مجمُوعے کو ”انجیل“ کہتا ہے اور انھیں کی وہ تصدیق کرتا ہے ۔ آج کوئی شخص ان بکھرے ہوئے اجزا کو مرتب کر کے قرآن سے ان کا مقابلہ کر کے دیکھے ، تو وہ دونوں میں بہت ہی کم فرق پائے گا اور جو تھوڑا بہت فرق محسُوس ہوگا، وہ بھی غیر معتصبانہ غور و تامّل کے بعد بآ سانی حل کی جا سکے گا۔