اس رکوع کو چھاپیں

سورة ال عمران حاشیہ نمبر١١۴

جن تیرا ندازوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عقب کی حفاظت کےلیے بٹھایا تھا انہوں نے جب دیکھا کہ دُشمن کا لشکر لوٹا جارہا ہے تو ان کو اندیشہ ہوا کہ کہیں ساری غنیمت انہی لوگوں کو نہ مِل جائے جواسے لوٹ  رہے ہیں اور ہم تقسیم کے موقع پر محروم رہ جائیں۔ اسی بنا پر انہوں  نے اپنی جگہ چھوڑ دی تھی۔ جنگ ختم ہونے کے بعد جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپس تشریف لائے تو آپ نے اُن لوگوں کو بُلا کر اس نافرمانی کی وجہ دریافت کی۔ انہوں نے جواب  میں کچھ عذرات پیش کیے جو نہایت کمزور تھے ۔ اس پر حضور نے فرمایا   بل ظننتم انا نغل ولا نقسم لکم۔”اصل بات یہ ہے کہ تم کو ہم پر اطمینان نہ تھا، تم نے یہ گمان کیا کہ ہم تمہارے ساتھ خیانت کریں گے اور تم کو حصّہ نہیں دیں گے۔“ اس آیت کا اشارہ  اسی معاملہ کی طرف ہے۔ ارشادِ الہٰی کا مطلب یہ ہے کہ جب تمہاری فوج کا کمانڈر خود اللہ  کا نبی تھا اور سارے معاملات اس کے ہاتھ میں تھے تو تمہارے دل میں اندیشہ پیدا کیسے ہوا کہ نبی کے ہاتھ میں تمہارا مفاد محفوظ نہ ہوگا۔ کیا خدا کے پیغمبر سے یہ توقع رکھتے ہو کہ جو مال اس کی نگرانی میں ہو وہ دیانت، امانت اور انصاف کے سوا  کسی اور طریقہ سے بھی تقسیم ہو سکتا ہے؟