اس رکوع کو چھاپیں

سورة البقرة حاشیہ نمبر۹۵

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے یہُودی بے چینی کے ساتھ اُس نبی کے منتظِر تھے جس کی بعثت کی پیشین گوئیاں ان کے انبیا نے کی تھیں۔ دُعائیں مانگا کرتے تھے کہ جلدی سے وہ آئے تو کفار کا غلبہ مِٹے اور پھر ہمارے عُروج کا دَور شروع ہو۔ خود اہلِ مدینہ اس بات کے شا ہد تھے کہ بعشتِ محمدی ؐ  سے پہلے یہی ان کے ہمسایہ یہُودی آنے والے نبی کی اُمّید پر جِیا کر تے تھے اور ان کا آئے دن کا تکیہ ء کلام یہی تھا کہ” اچھا، اب تو جس جس کا جی چاہے ہم پر ظلم کر لے ، جب وہ نبی آئے گا تو ہم ان سب ظالموں کو دیکھ لیں گے۔“ اہلِ مدینہ یہ باتیں سُنے ہوئے تھے، اسی لیے جب انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات معلوم ہوئے تو انہوں نے آپس میں کہا کہ دیکھنا ، کہیں یہ یہُودی تم سے بازی نہ لے جائیں۔ چلو، پہلے ہم ہی اس نبی پر ایمان لے آئیں۔ مگر ان کے لیے یہ عجیب ماجرا تھا کہ وہی یہُودی ، جو آنے والے نبی کے انتظار میں گھڑیاں گِن رہے تھے، اس کے آنے پر سب سے بڑھ کر اس کے  مخالف بن گئے۔
                اور یہ جو فرمایا کہ” وہ اس کو پہچان بھی گئے“، تو اس کے متعدّد ثبوت اُسی زمانے میں مل گئے تھے۔ سب سے زیادہ معتبر شہادت اُمّ المومنین حضرت صَفِیّہ کی ہے، جو خود ایک بڑے یہُودی عالم کی بیٹی اور ایک دُوسرے عالم کی بھتیجی تھیں۔ وہ فرماتی ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینے تشریف لائے ، تو میرے باپ اور چچا دونوں آپ ؐ  سے ملنے گئے۔ بڑی دیر تک آپ سے گفتگو کی۔ پھر جب گھر واپس آئے ، تو میں نے اپنے کانوں سے ان دونوں کو  یہ گفتگو کرتے سُنا:
                چچا:   کیا واقعی یہ وہی نبی ہے، جس کی خبریں ہماری کتابوں میں دی گئی ہیں؟
                والد:  خدا کی قسم ، ہاں۔
                چچا:   کیا تم کو اس کا یقین ہے؟
                والد:  ہاں۔
                چچا:   پھر کیا ارادہ ہے؟
                والد:  جب تک جان میں جان ہے اس کی مخالفت کروں گا اور اس کی بات چلنے نہ دوں گا۔

                 ( ابنِ ہشام- جلد دوم-صفحہ ۱۶۵، طبع جدید)