اس رکوع کو چھاپیں

سورة البقرة حاشیہ نمبر۸٦

یہ خطاب مدینے کے اُن نَو مسلموں سے ہے جو قریب کے زمانے ہی میں نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تھے۔ ان لوگوں کے کان میں پہلے سے نبوّت ، کتاب، ملائکہ، آخرت ، شریعت وغیرہ کی جو باتیں پڑی ہوئی تھیں، وہ سب انہوں نے اپنے ہمسایہ یہودیوں ہی سے سُنی تھیں۔ اور یہ بھی انہوں نے یہودیوں ہی سے سُنا تھا کہ دُنیا میں ایک پیغمبر اور آنے والے ہیں ، اور یہ کہ جو لوگ ان کا ساتھ دیں گے وہ ساری دُنیا پر چھا جائیں گے ۔ یہی معلومات تھیں  جن کی بنا پر اہلِ مدینہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوّت کا چرچا سُن کر آپ ؐ کی طرف خود متوجہ ہوئے اور جُوق در جُوق ایمان لائے۔ اب وہ متوقع تھے کہ جو لوگ پہلے ہی سے انبیا اور کُتب آسمانی کے پیرو ہیں اور جن کی دی ہوئی خبروں کی بدولت ہی ہم کو نعمتِ ایمان میسّر ہوئی ہے، وہ ضرور ہمارا ساتھ دیں گے، بلکہ اس راہ میں پیش پیش ہوں گے۔ چنانچہ یہی توقعات لے کر یہ پُر جوش نَو مسلم اپنے یہودی دوستوں اور ہمسایوں کے پاس جاتے تھے اور ان کو اسلام کی دعوت دیتے تھے۔ پھر جب وہ اس دعوت کا جواب انکار سے دیتے تو منافقین اور مخالفینِ اسلام اس سے یہ استدلال  کرتے تھے کہ معاملہ کچھ  مشتبہ معلوم ہوتا ہے، ورنہ اگر یہ واقعی نبی ہوتے تو آخر کیسے ممکن تھا کہ اہلِ کتاب کے علما اور مشائخ اور مقدس  بزرگ جانتے بُوجھتے ایمان لانے سے منہ موڑتے اور خواہ مخواہ اپنی عاقبت خراب کر لیتے۔ اِس بنا پر بنی اسرائیل کی تاریخی سرگزشت بیان کرنے کے بعد اب ان سادہ دل مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے کہ جن لوگوں کی سابق روایات یہ کچھ رہی ہیں ان سے تم کچھ بہت زیادہ لمبی چوڑی توقعات نہ رکھو، ورنہ جب ان کے پتھر دلوں سے تمہاری دعوتِ حق ٹکرا کر واپس آئے گی، تو دل شکستہ ہو جا ؤ گے۔  یہ لوگ تو صدیوں کے بگڑے ہوئے ہیں۔ اللہ کی جن آیات کو سُن کو تم پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے، انہی سے کھیلتے  اور تمسخر کرتے ان کی نسلیں بیت گئی ہیں۔ دینِ حق کو مسخ کر کے یہ اپنی خواہشات کے مطابق ڈھال چکے ہیں اور اسی مسخ شدہ دین سے یہ نجات کی اُمیدیں باندھے بیٹھے ہیں۔ ان سے یہ توقع رکھنا فضول ہے کہ حق کی آواز بلند ہوتے ہی  یہ ہر طرف سے دَوڑے چلے آئیں گے۔