اس رکوع کو چھاپیں

سورة البقرة حاشیہ نمبر۵٦

اسرائیل کے معنی ہیں عبد اللہ یا بندہ ٴ خدا ۔ یہ حضرت یعقوب ؑ کا لقب تھا، جو اُن کو اللہ تعالی ٰ کی طرف سے عطا ہوا تھا۔ وہ حضرت اسحٰا ق ؑ کے بیٹے اور حضرت ابراہیم ؑ کے پوتے تھے۔ انہی کی نسل کو بنی اسرائیل کہتے ہیں۔ پچھلے  چار رکوعوں میں تمہیدی تقریر تھی، جس کا خطاب تمام انسانوں کی طرف عام تھا۔ اب یہاں سے چودھویں رکوع تک مسلسل  ایک تقریر اِس قوم کو خطاب کرتے ہوئے چلتی  ہے  جس میں کہیں کہیں عیسائیوں اور مشرکینِ عرب کی طرف بھی کلام کا رُخ پھر گیا ہے اور موقع موقع سے اُن لوگوں کو بھی خطاب کیا گیا ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر ایمان لائے تھے۔ اس تقریر کو پڑھتے ہوئے حسبِ ذیل باتوں کو خاص طَور پر پیش ِ نظر رکھنا چاہیے:
                اوّلاً، اِس کا منشا یہ ہے کہ پچھلے پیغمبروں کی اُمت میں جو تھوڑے بہت لوگ ابھی ایسے باقی ہیں جن میں خیر و صلاھ کا عنصر موجود ہے، اُنہیں اُس صداقت پر ایمان لانے اور اُس کام میں شریک ہونے کی دعوت دی جائے جس کے ساتھ محمد ؐ اُٹھائے گئے تھے۔ اس لیے ان کو بتایا جا رہا ہے کہ یہ قرآن اور نہ نبی ؐ  وہی پیغام اور وہی کام لے کر آیا ہے جو اس سے پہلے تمہارے انبیا اور تمہارے پاس آنے والے صحیفے لائے تھے۔ پہلے یہ چیز تم کو دی گئی تھی تاکہ تم آپ  بھی اس پر چلو اور دُنیا کو بھی اس کی طرف بُلانے اور اس پر چلانے کی کوشش کرو۔ مگر تم دنیا کی رہنمائی تو کیا کرتے، خود بھی اس  ہدایت پر قائم نہ رہے اور بگڑتے چلے گئے۔ تمہاری تاریخ  اور تمہاری قوم کی موجودہ اخلاقی و دینی حالت خود تمہارے بگاڑ پر گواہ ہے۔ اب اللہ نے وہی چیز دے کر اپنے ایک بندے کو بھیجا ہے اور وہی خدمت اس کے سپرد کی ہے۔ یہ کوئی بیگانہ اور اجنبی چیز نہیں ہے ، تمہاری اپنی چیز ہے۔ لہٰذا جانتے بُوجھتے حق کی مخالفت نہ کرو، بلکہ اسے قبول کر لو۔ جو کام تمہارے کرنے کا تھا، مگر تم نے نہ کیا ، اسے کرنے کے لیے جو دوسرے لوگ اُٹھے ہیں ، ان کا ساتھ دو۔
                        ثانیاً، اس کا منشا عام یہودیوں پر حُجّت تمام کرنا اور صاف صاف ان کی دینی و اخلاقی حالت کو کھول کر رکھ دینا ہے۔ ان پر ثابت کیا جارہا ہے کہ یہ وہی دین ہے ، جو تمہارے انبیا لے کر آئے تھے۔ اُصولِ دین میں سے کوئی ایک چیز بھی ایسی نہیں ہے، جس میں قرآن کی تعلیم تورات کی تعلیم سے مختلف ہو۔ ان پر ثابت کیا جارہا ہے کہ  جو ہدایت تمہیں دی گئی تھی اس کی پیروی کرنے میں ، اور جو رہنمائی کا منصب تمہیں دیا گیا تھا  اس کا حق ادا کرنے میں تم بُری طرح ناکام ہوئے ہو۔ اس کے ثبوت میں ایسے  واقعات سے اِستِشْہاد کیا گیا ہے جن کی تردید وہ نہ کر سکتے تھے۔ پھر جس طرح حق کو حق جاننے کے باوجود وہ اس کی مخالفت میں سازشوں ، وسوسہ اندازیوں ، کج بحثیوں اور مکّاریوں سے کام لے رہے تھے، اور جن ترکیبوں سے وہ کوشش کر رہے تھے کہ کسی طرح محمد ؐ  کا مشن کامیاب نہ ہونے پائے، ان سب کی پردہ دری کی جارہی ہے ، جس سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ ان کی ظاہری مذہبیّت محض ایک ڈھونگ ہے، جس کے نیچے دیانت اور حق پرستی کے بجائے ہٹ دھرمی، جاہلانہ عصبیت اور نفس پرستی کام کر رہی ہے اور حقیقت میں وہ یہ چاہتے ہی نہیں ہیں کہ نیکی کا کوئی کام پھل پُھول سکے۔ اِس طرح اتمامِ حجّت کرنے کا فائدہ یہ ہوا کہ ایک طرف خود اس قوم میں جو صالح عنصر تھا، اُس کی آنکھیں کُھل گئیں، دُوسری طرف مدینے کے عوام پر اور بالعموم مشرکینِ عرب پر ان لوگوں کا جو مذہبی و اخلاقی اثر تھا، وہ ختم ہو گیا ، اور تیسری طرف خود اپنے آپ کو بے نقاب دیکھ کر ان کی ہمتیں اتنی پست ہوگئیں کہ وہ اس جُراٴ ت کے ساتھ کبھی مقابلے میں کھڑے نہ ہو سکے جس کے ساتھ ایک وہ شخص کھڑا ہوتا ہے جسے اپنے حق پر ہونے کا یقین ہو۔
                        ثالثًا، پچھلے چار رکوعوں میں نوعِ انسانی کو دعوتِ عام دیتے ہوئے جو کچھ کہا گیا تھا ، اسی کے سلسلے میں ایک خاص قوم کی معین مثال لے کر بتایا جا رہا ہے کہ جو قوم خدا کی بھیجی ہوئی ہدایت سے منہ موڑتی ہے ، اس کا انجام کیا ہوتا ہے۔ اس توضیح کے لیے تمام قوموں میں سے بنی اسرائیل کو منتخب کرنے کی وجہ یہ ہے کہ دُنیا میں صرف یہی ایک قوم ہے جو مسلسل چار ہزار برس سے تمام اقوامِ عالم کے سامنے ایک زندہ نمونہ عبرت بنی ہوئی ہے۔ ہدایت الہٰی پر چلنے اور نہ چلنے سے جتنے نشیب و فراز کسی قوم کی زندگی میں رُونما ہو سکتے ہیں اور سب اس قوم کی عبرتناک سرگزشت میں نظر آجاتے ہیں۔

                        رابعًا، اس سے پیروانِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سبق دینا مقصُود ہے کہ وہ اس انحطاط کے گڑھے میں گرنے سے بچیں جس میں پچھلے انبیا کے پیرو گر گئے۔ یہودیوں کی اخلاقی کمزوریوں ، مذہبی غلط فہمیوں اور اعتقادی و عملی گمراہیوں میں سے ایک ایک کی نشان دہی کر کے اس کے بالمقابل دینِ حق کے مقتضیات بیان کیے گئے ہیں تاکہ مسلمان اپنا راستہ صاف دیکھ سکیں اور غلط راہوں سے بچ کر  چلیں۔ اس سلسلے میں یہُود و نصاریٰ پر تنقید کرتے ہوئے قرآن جو کچھ کہتا ہے اس کو پڑھتے وقت مسلمانوں کو نبی صلی  اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث یاد رکھنی چاہیے جس میں آپ ؐ نے فرمایا ہے کہ تم بھی آخر کار پچھلی اُمتوں ہی کی روش پر چل رہو گے حتّٰی کہ  اگر وہ کسی گوہ کے بِل میں گُھسے ہیں، تو تم بھی اسی میں گُھسو گے۔ صحابہ ؓ  نے پُوچھا: یا رسول اللہ ، کیا یہُود و نصاریٰ مراد ہیں؟ آپ ؐ نے فرمایا، اور کون؟ نبی اکرم ؐ کا ارشاد محض ایک تَو بِیخ نہ تھا  بلکہ اللہ کی دی ہوئی بصیرت سے آپ یہ جانتے تھے کہ انبیا کی اُمتوں میں بگاڑ کن کن راستوں سے آیا اور کن کن شکلوں میں ظہُور کرتا رہا ہے۔