اس رکوع کو چھاپیں

سورة البقرة حاشیہ نمبر۵۵

یہ نسلِ انسانی کے حق میں ابتدائے آفرینش سے قیامت تک کے لیے اللہ کا مستقل فرمان ہے اور اسی کو تیسرے رکوع میں اللہ کے ”عہد“سے تعبیر کیا گیا ہے۔ انسان کا کام خود راستہ تجویز کرنا نہیں ہے، بلکہ بندہ اور خلیفہ ہونے کی دو گو نہ حیثیتوں کے لحاظ سے وہ اس پر مامُور ہے کہ اُس راستے کی پیروی کرے جو اس کا ربّ  اس کے لیے تجویز کرے۔ اور اس راستے کے معلوم ہونے کی دو ہی صورتیں ہیں : یا تو کسی انسان کے پاس براہِ راست اللہ کی طرف سے وحی آئے، یا پھر وہ اُس انسان کا اتباع کرے جس کے پاس وحی آئی ہو۔ کوئی تیسری صُورت یہ معلوم ہونے کی نہیں ہے کہ ربّ کی رضا کس راہ میں ہے۔ اِن دو صُورتوں کے ماسوا ہر صُورت غلط ہے، بلکہ  غلط ہی نہیں، سراسر بغاوت بھی ہے، جس کی سزا جہنّم کے سوا اور کچھ نہیں۔

قرآن مجید میں آدم کی پیدائش اور نَوعِ انسانی کی ابتدا کا یہ قصّہ سات مقامات پر آیا ہے، جن  میں سے پہلا مقام یہ ہے اور باقی مقامات حسبِ ذیل ہیں: الاعراف، رکوع ۲۔ الحجر، رکوع ۳ ۔ بنی اسرائیل، رکوع ۷ ۔ الکہف، رکوع ۷ ۔ طٰہٰ، رکوع ۷ ۔ صٓ، رکوع ۵ ۔ بائیبل کی کتاب ِ پیدائش، باب اوّل، دوم و سوم میں بھی یہ قصّہ بیان ہوا ہے۔ لیکن دونوں کا مقابلہ کرنے سے ہر صاحبِ نظر انسان محسُوس کر سکتا ہے کہ دونوں کتابوں میں کیا فرق ہے۔

آدم علیہ السلام کی تخلیق کے وقت اللہ اور فرشتوں کی گفتگو کا ذکر تلمود میں بھی آیا ہے، مگر وہ بھی اس معنوی روح سے خالی ہے جو قرآن کے بیان کردہ قصہ میں پائی جاتی ہے بلکہ اس میں لطیفہ بھی پایا جاتا ہے کہ جب فرشتوں نے اللہ سے پوچھا ، انسانوں کو آخر کیوں پیدا کیا جا رہا ہے؟ ًتو اللہ تعالیٰ نے جواب دیا ۔ ً تاکہ ان میں نیک لوگ پیدا ہوں" بد لوگوں کا ذکر اللہ نے نہیں کیا ورنہ فرشتے انسان کی تخلیق کی منظوری نہ دیتے۔

Talmudic Miscellany, Paul Isaac Hershon - LONDON 1880, P 294-95