اس رکوع کو چھاپیں

سورة البقرة حاشیہ نمبر۴۷

ِن الفاظ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ غالباً ابلیس سجدے سے انکار کرنے میں اکیلا نہ تھا، بلکہ جِنّوں کی ایک جماعت نافرمانی پر آمادہ ہو گئی تھی اور ابلیس کا نام صرف اِس لیے لیا گیا کہ وہ ان کا سردار اور  اس بغاوت میں پیش پیش تھا۔ لیکن اِس آیت کا دُوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ” وہ کافروں میں سے تھا“۔ اِس صُورت میں مطلب یہ ہو گا کہ جِنّوں کی ایک جماعت پہلے سے ایسی موجود تھی جو سرکش و نافرمان تھی ، اور ابلیس کا تعلق اسی جماعت سے تھا۔ قرآن میں بالعموم ”شیاطین“ کا لفظ اِنہی جِنّوں اور ان کی ذرّیّت (نسل) کے لیے استعمال ہوا ہے، اور جہاں شیاطین سے مُراد انسان مراد  لینے کے لیے کوئی قرینہ نہ ہو، وہاں یہی شیاطینِ جن مُراد ہوتے ہیں۔