اس رکوع کو چھاپیں

سورة البقرة حاشیہ نمبر ۳۴۲

اس دُعا کی پوری  رُوح کو سمجھنے کے لیے یہ بات پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ یہ آیات ہجرت سے تقریباً ایک سال پہلے معراج کے موقع پر نازل ہوئی تھیں ، جبکہ مکّے میں کُفر و اسلام کی کشمکش اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی، مسلمانوں پر مصائب و مشکلات کے پہاڑ ٹُوٹ رہے تھے، اور صرف مکّہ ہی نہیں ، بلکہ سرزمینِ عرب پر کوئی جگہ ایسی نہ تھی جہاں کسی بندہٴ خدا نے دینِ حق کی پیروی اختیار کی ہو اور اس کے لیے خدا کی سرزمین پر سانس لینا دشوار نہ کر دیا گیا ہو۔ ان حالات میں مسلمانوں کو تلقین کی گئی کہ اپنے مالک سے اس طرح دعا مانگا کرو۔ ظاہر ہے کہ دینے والا خود ہی جب مانگنے کا ڈھنگ بتائے، تو ملنے کا یقین آپ سے آپ پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے یہ دعا اس وقت مسلمانوں کے لیے غیر معمُولی تسکینِ قلب کی موجب ہوئی۔ علاوہ بریں اس دعا میں صمنًا مسلمانوں کو یہ بھی تلقین کر دی گئی کہ وہ اپنے جذبات کو کسی نا مناسب رُخ پر نہ بہنے دیں، بلکہ انہیں اس دُعا کے سانچے میں ڈھال لیں۔ ایک طرف اُن روح فرسا مظالم کو دیکھیے ، جو محض حق پرستی کے جرم میں اُن لوگوں پر توڑے جارہے تھے ، اور دُوسری طرف اِ س دُعا کو دیکھیے، جس میں دشمنوں کے خلاف کسی تلخی کا شائبہ تک نہیں۔ ایک طرف اُس جسمانی تکلیفوں اور مالی نقصانات کو دیکھیے ، جن میں یہ لوگ مُبتلا تھے، اور دُوسری طرف اُس دُعا کی دیکھیے جس میں کسی دُنیوی مفاد کی طلب کا ادنٰی نشان تک نہیں ہے ۔ ایک طرف اِن حق پرستوں کی انتہائی خستہ حالی کو دیکھیے، اور دُوسری طرف ان بلند  اور پاکیزہ جذبات کو دیکھیے، جن سے یہ دُعا  لبریز ہے۔ اس تقابل ہی سے صحیح اندازہ ہو سکتا ہے کہ اُس وقت اہلِ ایمان کو کس طرز کی اخلاقی و رُوحانی تربیت دی جا رہی تھی۔