اس رکوع کو چھاپیں

سورة البقرة حاشیہ نمبر ۳۳۱

یہ مطلب نہیں ہے کہ رہن کا معاملہ صرف سفر ہی میں ہو سکتا ہے، بلکہ ایسی صورت چونکہ زیادہ تر سفر میں پیش آتی ہے، اس لیے خاص طور پر اس کا ذکر کر دیا گیا ہے۔ نیز معاملہٴ رہن کے لیے یہ شرط بھی نہیں ہے کہ جب دستاویز لکھنا ممکن نہ ہو، صرف اسی صورت میں رہن کا معاملہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جب محض دستاویز لکھنے پر کوئی قرض دینے کے لیے آمادہ نہ ہو،  تو قرض کا طالب اپنی کوئی چیز رہن  رکھ کر روپیہ لے لے۔ لیکن قرآن مجید چونکہ اپنے پیرووں کو فیاضی کی تعلیم دینا چاہتا ہے ، اور یہ بات بلند اخلاق سے فروتر ہے کہ ایک شخص مال رکھتا ہو اور وہ ایک ضرورت مند آدمی کو اس کی کو ئی چیز رہن رکھے بغیر قرض نہ دے، اس لیے قرآن  نے قصداً اِس دوسری صورت کا ذکر نہیں کیا۔

اس سلسلے میں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ رہن بالقبض کا مقصد صرف یہ ہے کہ قرض دینے والے کو اپنے قرض کی واپسی کا اطمینان ہو جائے ۔ اسے اپنے دیے ہوئے مال کے معاوضے میں شے مرہونہ سے فائدہ اُٹھانے کا حق نہیں ہے ۔ اگر کوئی شخص رہن لیے ہوئے مکان میں خود رہتا ہے یا اس کا کرایہ کھاتا ہے ، تو دراصل سود کھاتا ہے ۔ قرض پر براہِ راست سُود لینے اور رہن لی ہوئی چیز سے فائدہ اُٹھانے میں اُصُولاً کوئی فرق نہیں ہے۔ البتہ اگر کوئی جانور رہن لیا گیا ہو تو اس کا دُودھ استعمال کیا جا سکتا ہے ، اور اس سے سواری و بار برداری کی خدمت لی جا سکتی ہے ، کیونکہ یہ دراصل اُس چارے کا معاوضہ ہے جو مرتہن اس  جانور کو کھلاتا ہے۔