اس رکوع کو چھاپیں

سورة البقرة حاشیہ نمبر ۳۱۸

تجارت اور سُود کا اُصُولی فرق ، جس کی بنا پر دونوں کی معاشی اور اخلاقی حیثیت ایک نہیں ہو سکتی، یہ ہے׃
(١) تجارت میں بائع اور مشتری کے درمیان منافع کا مساویانہ تبادلہ ہوتا ہے ، کیونکہ مشتری اس چیز سے نفع اُٹھاتا ہے جو اُس نے بائع سے خریدی ہے اور بائع اپنی اُس محنت ، ذہانت اور وقت کی اُجرت لیتا ہے، جس کو اس نے مشتری کے لیے وہ چیز مہیّا کرنے میں صرف کیا ہے۔ بخلاف اس کے سُودی لین دین میں منافع کا تبادلہ برابری کے ساتھ نہیں ہوتا۔ سُود لینے والا تو مال کی ایک مقرر مقدار لے لیتا ہے ، جو اس کے لیے بالیقین نفع بخش ہے ، لیکن اس کے مقابلے میں سُود دینے والے کو صرف مہلت ملتی ہے ، جس کا نفع بخش ہونا یقینی نہیں۔  اگر اس نے سرمایہ اپنی ذاتی ضروریات پر خرچ کرنے لیے لیا ہے تب تو ظاہر ہے کہ مُہلت اس کے لیے قطعی نافع نہیں ہے۔ اور اگر وہ تجارت یا زراعت یا صنعت و حرفت میں لگانے کے لیے سرمایہ لیتا ہے تب بھی مُہلت میں جس طرح اس کے لیے نفع کا امکان ہے اُسی طرح نقصان کا بھی امکان ہے۔ پس سود کا معاملہ یا تو ایک فریق کے فائدے اور دُوسرے کے نقصان پر ہوتا ہے، یا ایک یقینی اور متعین فائدے اور دُوسرے کے غیر یقینی اور غیر متعین فائدے پر۔
(۲)تجارت میں بائع  مشتری سے خواہ کتنا ہی زائد منافع لے، بہرحال وہ جو کچھ لیتا ہے، ایک ہی بار لیتا ہے۔ لیکن سُود کے معاملے میں مال دینے والا اپنے مال پر مسلسل منافع وصُول کرتا رہتا ہے اور وقت کی رفتار کے ساتھ ساتھ اُس کا منافع بڑھتا چلا جاتا ہے ۔ مدیون نے اس کے مال سے خواہ کتنا ہی فائدہ حاصل کیا ہو، بہر طور اس کا فائدہ ایک خاص حد تک ہی ہو گا۔ مگر دائن اس فائدے کے بدلے میں جو نفع اُٹھاتا ہے، اس کے لیے کوئی حد نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ مدیون کی پُوری کمائی، اس کے تمام وسائل ِ معیشت ، حتّٰی کہ اس کے تن کے کپڑے اور گھر کے برتن تک ہضم کر لے اور پھر بھی اس کا مطالبہ باقی رہ جائے۔
(۳)تجارت میں شے اور اس کی قیمت کا تبادلہ ہونے کے ساتھ ہی معاملہ ختم ہو جاتا ہے ، اس کے بعد مشتری کو کوئی چیز بائع کو واپس دینی نہیں ہوتی ۔ مکان یا زمین یا سامان کے کرایے میں اصل شے ، جس کے استعمال کا معاوضہ دیا جاتا ہے، صَرف نہیں ہوتی، بلکہ برقرار رہتی ہے اور بجنسہ اکرایہ دار کو واپس دے  دی جاتی ہے ۔ لیکن سُود کے معاملہ میں قرض دار سرمایہ کو صَرف کر چکتا ہے اور پھر اس کو وہ صرف شدہ مال دوبارہ پیدا کر کے اضافے کے ساتھ واپس دینا ہوتا ہے۔
(۳)
تجارت اور صنعت و حرفت اور زراعت میں انسان محنت، ذہانت اور وقت صرف کر کے اس کا فائدہ لیتا ہے۔ مگر سُودی کاروبار  میں وہ محض اپنا  ضرورت سے زائد مال دے کر بلا کسی محنت و مشقت کے دُوسروں کی کمائی میں شریکِ غالب بن جاتا ہے۔ اس کی حیثیت اِصطلاحی ” شریک“ کی نہیں ہوتی جو نفع اور نقصان دونوں میں شریک ہوتا ہے، اور نفع میں جس کی شرکت نفع کے تناسب سے ہوتی ہے، بلکہ وہ ایسا شریک ہوتا ہے جو بلا لحاظ نفع و نقصان اور بلا لحاظِ تناسبِ نفع اپنے طے شدہ منافع کا دعوے دار ہوتا ہے۔

ان وجوہ سے تجارت کی معاشی حیثیت اور سُود کی معاشی حیثیت میں اتنا عظیم الشان فرق ہو جاتا ہے کہ تجارت انسانی تمدّن کی تعمیر کرنے والی قوت بن جاتی ہے اور اس کے برعکس سُود اس کی تخریب کرنے کا موجب بنتا ہے۔ پھر اخلاقی حیثیت سے یہ سُود کی عین فطرت ہے کہ وہ افراد میں بخل ، خود غرضی ، شقاوت ، بے رحمی اور زر پرستی کی صفات پیدا کرتا ہے ، اور ہمدردی و امداد باہمی کی رُوح کو فنا کر دیتا ہے۔ اس بنا پر سُود معاشی اور اخلاقی دونوں حیثیتوں سے نوع انسانی کے لیے تباہ کن ہے۔