اس رکوع کو چھاپیں

سورة البقرة حاشیہ نمبر ۳۰۹

حکمت سے مراد صحیح بصیرت اور صحیح قوّتِ فیصلہ ہے۔ یہاں اس ارشاد سے مقصُود یہ بتانا ہے کہ جس شخص کے پاس حکمت کی دولت ہو گی، وہ ہرگز شیطان کی بتائی ہوئی راہ پر نہ چلے گا، بلکہ اُس راہِ کشادہ کو اختیار کرے گا جو اللہ نے دکھائی ہے۔ شیطان کے تنگ نظر مریدوں کی نگاہ میں یہ بڑی ہوشیاری اور عقل مندی ہے کہ آدمی اپنی دولت کو سنبھال سنبھال کر رکھے اور ہر وقت مزید کمائی کی فکر ہی میں لگا رہے۔ لیکن جن لوگوں نے اللہ سے بصیرت کا نُور پایا ہے، اُن کی نظر میں یہ عین بے وقوفی ہے۔ حکمت و دانائی اُن کے نزدیک یہ ہے کہ آدمی جو کچھ کمائے ، اُسے اپنی متوسط ضروریات پوری کرنے کے بعد دل کھول کر بَھلائی کے کاموں میں خرچ کرے۔ پہلا شخص ممکن ہے کہ دُنیا  کی اس چند روزہ زندگی میں دُوسرے کی بہ نسبت بہت زیادہ خوشحال ہو، لیکن انسان کے لیے یہ دُنیا کی زندگی پُوری زندگی نہیں، بلکہ اصل زندگی کا ایک نہایت چھوٹا سا جُز ہے۔ اس چھوٹے سے جُز کی خوش حالی کے لیے جو شخص بڑی اور بے پایاں زندگی کی بدحالی مُول لیتا ہے، وہ حقیقت میں سخت بے وقوف ہے۔ عقل مند دراصل وہی ہے ، جس نے اس مختصر زندگی کی مُہلت سے فائدہ اُٹھا کر تھوڑے سرمایے ہی سے اُس ہمیشگی کی زندگی میں اپنی خوشحالی کا بندوبست کر لیا۔