اس رکوع کو چھاپیں

سورة البقرة حاشیہ نمبر۳۰۴

اس تمثیل میں بارش سے مراد خیرات ہے۔ چٹان سے مراد اُس نیت اور اُس جذبے کی خرابی ہے، جس کے ساتھ خیرات کی گئی ہے۔ مٹی کی ہلکی تہہ سے مراد نیکی کی وہ ظاہری شکل ہے، جس کے نیچے نیت کی خرابی چھپی ہوئی ہے۔ اس توضیح کے بعد مثال اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے۔ بارش کا فطری اقتضا  تو یہی ہے کہ اس سے روئیدگی  ہو اور کھیتی نشونما پائے  ۔ لیکن جب روئیدگی قبول کرنے والی زمین محض برائے نام اُوپر ہی اُوپر ہو، اور اس اُوپری تہہ کے نیچے نِری پتھر کی ایک چٹان رکھی ہوئی ہو، تو بارش مفید ہونے کے بجائے اُلٹی مُضِر ہوگی۔ اسی طرح خیرات بھی اگرچہ بھلائیوں کو نشونما دینے کی قوت رکھتی ہے ، مگر اس کےنافع ہونے کے لیے حقیقی نیک نیتی شرط ہے۔ نیت نیک  نہ ہو تو ابرِ کرم کا فیضان بجز اس کے کہ محض ضیاعِ مال ہے اَور کچھ نہیں۔