اس رکوع کو چھاپیں

سورة البقرة حاشیہ نمبر۲٦۵

یہاں سے ایک دُوسرا سلسلہ ء تقریر شروع ہوتا ہے، جس میں مسلمانوں کو راہِ خدا میں جہاد اور مالی قربانیاں کرنے پر اُبھارا گیا ہے اور انھیں اُن کمزوریوں سے بچنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے ،جن کی وجہ سے آخر کار بنی اسرائیل زوال و انحطاط سے دوچار ہوئے۔ اس مقام کو سمجھنے کے لیے یہ بات پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ مسلمان اس وقت مکّے سے نکالے جا چکے تھے، سال ڈیڑھ سال سے مدینے میں پناہ گزیں تھے، اور کفّار کے مظالم سے تنگ آکر خود بار بار مطالبہ کر چکے تھے کہ ہمیں لڑنے کی اجازت دی جائے۔ مگر جب اُنھیں لڑائی کا حکم دے دیا گیا ، تو اب ان میں بعض لوگ کَسمَسا رہے تھے، جیسا کہ چھبّیسویں رکوع کے آخر میں ارشاد ہوا ہے۔ اِس لیے یہاں بنی اسرائیل کی تاریخ کے دو اہم واقعات سے اُنھیں عبرت دلائی گئی ہے۔