اس رکوع کو چھاپیں

سورة البقرة حاشیہ نمبر۲٦۳

“اصل میں لفظ” صَلوٰۃ الْوُسْطیٰ“استعمال ہوا ہے۔ اِس سے مراد بعض مفسّرین نے صبح کی نماز لی ہے، بعض  نے ظہر، بعض نے مغرب  اور بعض نے عشا۔ لیکن ان میں سے کوئی قول بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں ہے۔ صرف اہلِ تاویل کا استنباط ہے۔ سب سے زیادہ اقوال نمازِ عصر کے حق میں ہیں اور کہا جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسی نماز کو صلوٰۃ وسطیٰ قرار دیا ہے۔ لیکن جس واقعہ سے یہ نتیجہ نکا لا جاتا ہے وہ صرف یہ ہے کہ جنگِ احزاب کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرکین کے حملے نے اس درجہ مشغول رکھا کہ سُورج ڈوبنے کو آگیا اور آپؐ  نمازِ عصر نہ پڑھ سکے۔ اُس وقت آپؐ  نے فرمایاکہ”خدا ان لوگوں کی قبریں اور ان کے گھر آگ سے بھر دے، انہوں نے ہماری صلوٰۃ وسطیٰ فوت کرا دی۔“ اِس سے یہ سمجھا گیا کہ آپ ؐ نے نمازِ عصر کو صلوٰۃِ وسطیٰ فرمایا ہے، حالانکہ اس کا یہ مطلب ہمارے نزدیک زیادہ قرینِ صواب ہے کہ اس مشغولیت نے اعلیٰ درجے کی نماز ہم سے فوت کرادی، ناوقت پڑھنی پڑے گی، جلدی جلدی ادا کرنی ہوگی، خشوع و خضوع اور اطمینان و سکون کے ساتھ نہ پڑھ سکیں گے۔

وسطیٰ کے معنی بیچ والی چیز کے بھی ہیں اور ایسی چیز کے بھی جو اعلیٰ اور اشرف ہو۔ صلوٰۃِ وسطیٰ سے مراد بیچ کی نماز بھی ہو سکتی ہے اور ایسی نماز بھی جو صحیح وقت پر پُورے خشوع اور توجّہ اِلی اللہ کے ساتھ پڑھی جائے، اور جس میں نماز کی تمام خوبیاں موجود ہوں۔ بعد کا فقرہ کہ”اللہ کے آگے فرمانبردار بندوں کی طرح کھڑے ہو“، خود اس کی تفسیر کر رہا ہے۔