اس رکوع کو چھاپیں

سورة البقرة حاشیہ نمبر۲۴۷

حضرات عثمان، ابن مسعود، زید بن ثابت وغیرہم کے نزدیک رُجوع کا موقع چار مہینے کے اندر ہی ہے۔ اس مدّت کا گزر جانا خود اِس بات کی دلیل ہے کہ شوہر نے طلاق کا عزم کر لیا ہے، اس لیے مدّت گزرتے ہی طلاق خود بخود واقع ہو جائے گی اور وہ ایک طلاق ِ بائن ہوگی، یعنی دَورانِ عدّت میں شوہر کو رُجوع کا حق نہ ہوگا۔ البتہ اگر وہ دونوں چاہیں ، تو دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں۔ حضرات عمر ، علی، ابنِ عباس اور ابنِ عمر سے بھی ایک قول اسی معنی میں منقول ہے اور فقہائے حنفیہ نے اسی رائے کو قبول کیا ہے۔
سعید بن مُسَیِّب ، مکحُول، زُہری وغیرہ حضرات اس رائے سے یہاں تک تو متفق ہیں کہ چار مہینے کی مدّت گزرنے کے بعد خود بخود طلاق واقع ہو جائے گی، مگر اُن کے نزدیک وہ ایک طلاق رجعی ہوگی، یعنی دَورانِ عِدّت میں شوہر کو رجوع کر لینے کا حق ہوگا اور رجوع نہ کرے تو عدّت گزر جانے کے بعد دونوں اگر چاہیں ، تو نکاح کر سکیں گے۔

بخلاف اس کے حضرت عائشہ ؓ ، ابو الدَّرْدَاء اور اکثر فقہائے مدینہ کی رائے یہ ہے کہ چار مہینے کی مدّت گزرنے کے بعد معاملہ عدالت میں پیش ہوگا اور حاکمِ عدالت شوہر کو حکم دے گا کہ یا تو اس عورت  سے رُجوع کرے یا اُسے طلاق دے۔ حضر عمر ؓ ، حضرت علی  ؓ اور ابنِ عمر ؓ  کا ایک قول اس کی تائید میں بھی ہے اور امام مالک و  شافعی نے اسی کو قبول کیا ہے۔