اس رکوع کو چھاپیں

سورة البقرة حاشیہ نمبر۲۴۵

اِصطلاحِ شرع میں اس کو ایلاء کہتے ہیں۔ میاں اور بیوی کے درمیان تعلقات ہمیشہ خوش گوار تو نہیں رہ سکتے۔ بگاڑ کے اسباب پیدا ہوتے ہی رہتے ہیں ۔ لیکن ایسے بگاڑ کو خدا کی شریعت پسند نہیں کرتی کہ دونوں ایک دوسرے  کےساتھ قانونی طور پر رشتہ ء ازدواج میں تو بندھے رہیں، مگر عملاً ایک دُوسرے سے اس طرح الگ رہیں کہ گویا وہ میاں اور بیوی نہیں ہیں۔ ایسے بگاڑ کے لیے اللہ تعالیٰ نے چار مہینے کی مدّت مقرر کر دی کہ یا تو اس دَوران میں اپنے تعلقات درست کر لو، ورنہ ازدواج کا رشتہ منقطع کر دو تاکہ دونوں ایک دُوسرے سے آزاد ہو کر جس سے نباہ کر سکیں، اس کے ساتھ نکاح کر لیں۔
آیت میں چونکہ”قَسم کھالینے“ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، اس لیے فقہائے حنفیہ اور شافعیہ نے اس آیت کا منشا یہ سمجھا ہے کہ جہاں شوہر نے بیوی سے تعلق زن و شو نہ رکھنے کی قَسم کھائی ہو، صرف وہیں اس حکم کا اطلاق ہوگا، باقی رہا قسم کھائے بغیر تعلق منقطع کر لینا، تو یہ خواہ کتنی ہی طویل مدّت کے لیے ہو، اس آیت کا حکم اُس صُورت پر چسپاں نہ ہوگا۔ مگر فقہائے مالکیہ کی رائے یہ ہے کہ خواہ قَسم کھائی گئی ہو یا نہ کھائی گئے ہو، دونوں صُورتوں میں ترکِ تعلق کے لیے یہی چار مہینے کی مُدّت ہے۔ ایک قول امام احمد کا بھی اسی کی تائید میں ہے۔( بدایۃ المجتہد، جلد دوم ، ص ۸۸ ، طبع مصر، سن ۱۳۳۹ ھ)

حضرت علی  ؓ اور ابنِ عباس ؓ اور حسن بصری کی رائے میں یہ حکم صرف اُس ترکِ تعلق کے لیے ہے ، جو بگاڑ کی وجہ سے ہو۔ رہا کسی مصلحت سے شوہر کا بیوی کے ساتھ جسمانی  رابطہ منقطع کر دینا، جبکہ تعلقات خوشگوار ہوں، تو اس پر یہ حکم منطبق نہیں ہوتا۔ لیکن دُوسرے فقہا کی رائے میں ہر وہ حلف جو شوہر اور بیوی کے درمیان رابطہ ء جسمانی کو منقطع کر دے، ایلاء ہے اور سے چار مہینے سے زیادہ قائم نہ رہنا چاہیے، خواہ ناراضی سے ہو یا رضا مندی سے۔