اس رکوع کو چھاپیں

سورة البقرة حاشیہ نمبر۲۳۲

یہ بات ایک واقعہ سے متعلق ہے۔ رجب سن ۲ ہجری میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ آدمیوں کا ایک دستہ نَخْلہ کی طرف بھیجا تھا( جو مکّے اور طائف کے درمیان ایک مقام ہے) اور اس کو ہدایت فرمادی تھی کہ قریش کی نقل و حرکت اور اُن کے آئندہ  ارادوں کے متعلق  معلومات حاصل کرے۔ جنگ کی کوئی اجازت آپ ؐ نے نہیں دی تھی۔ لیکن ان لوگوں کو راستے میں قریش کا ایک چھوٹا سا تجارتی قافلہ مِلا اور اس پر انہوں نے حملہ کر کے ایک آدمی کو قتل کر دیا  اور باقی لوگوں کو اُن کے مال سمیت گرفتار کر کے مدینے لے آئے۔ یہ کاروائی ایسے وقت ہوئی، جب کہ رجب ختم اور شعبان شروع ہو رہا تھا اور یہ امر مشتبہ تھا کہ آیا حملہ رجب (یعنی ماہِ حرام ) ہی میں ہوا ہے یا نہیں۔ لیکن قریش نے ، اور ان سے درپردہ ملے ہوئے یہُودیوں اور منافقین ِ مدینہ نے مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کرنے لیے اس واقعہ کو خوب شہرت دی اور سخت اعتراضات شروع کر دیے کہ یہ لوگ چلے ہیں بڑے اللہ والے بن کر اور حال یہ ہے کہ ماہِ حرام تک میں خُونریزی سے نہیں چُوکتے۔ اِنہی اعتراضات کا جواب اس آیت میں دیا گیا ہے۔ جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ بلا شبہہ ماہِ حرام میں لڑنا بڑی بُری حرکت ہے، مگر اس پر اعتراض کرنا اُن لوگوں کے منہ کو تو زیب نہیں دیتا ، جنھوں نے ۱۳ برس مسلسل اپنے سینکڑوں بھائیوں پر صرف اس لیے ظلم توڑے کہ وہ ایک خدا پر ایمان لائے تھے، پھر ان کو یہاں تک تنگ کیا کہ وہ جلا وطن ہونے پر مجبُور ہو گئے، پھر اس پر بھی اکتفا نہ کیااور اپنے ان بھائیوں کے لیے مسجدِ حرام تک جانے کا راستہ بھی بند کر دیا۔ حالانکہ مسجدِ حرام کسی کی مملوکہ جائداد نہیں ہے اور پچھلے دو ہزار برس میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی کو اُس کی زیارت سے روکا گیا ہو۔ اب جن ظالموں کا نامہء اعمال  اِن کرتُوتوں سے سیاہ ہے ، ان کا کیا منہ ہے کہ ایک معمولی سی سرحدی جھڑپ پر اس قدر زور شور کے اعتراضات کریں، حالانکہ اس جھڑپ میں جو کچھ ہوا ہے وہ نبی کی اجازت کے بغیر ہوا ہے اور اس کی حیثیت اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ اسلامی جماعت  کے چند آدمیوں سے ایک غیر ذمہ دارانہ فعل کا ارتکاب ہو گیا ہے۔

اس مقام پر یہ بات بھی معلوم رہنی چاہیے کہ جب یہ دستہ قیدی اور مالِ غنیمت لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تھا ، تو آپ نے اسی وقت فرما دیا تھا کہ میں  نے تم کو لڑنے کی اجازت تو نہیں دی تھی۔ نیز آپ نے ان کے  لائے ہوئے مالِ غنیمت میں سے بیت المال کا حصّہ لینے سے بھی اِنکار فر ما دیا تھا، جو اس بات کی علامت تھی کہ ان کی یہ لُوٹ ناجائز ہے۔ عام مسلمانوں نے بھی اس فعل پر اپنے ان آدمیوں کو سخت ملامت کی تھی اور مدینے میں کوئی ایسا نہ تھا، جس نے  انھیں اس پر داد دی ہو۔