اس رکوع کو چھاپیں

سورة البقرة حاشیہ نمبر۲۲۰

“حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السّلام کے زمانے سے عرب کا معرُوف طریقہء حج یہ تھا کہ ۹  ذی الحجہ کو مِنیٰ سے عَرَفات جاتے تھے اور رات کو وہاں سے پلٹ کر مُزْ دلفہ میں ٹھیرتے تھے۔ مگر بعد کے زمانے میں جب رفتہ رفتہ قریش کی برہمنیّت قائم ہو گئی ، تو انہوں نے کہا: ہم اہل ِ حرم ہیں، ہمارے مرتبے سے یہ بات فروتر ہے کہ عام  اہلِ عرب کے ساتھ عرفات تک جائیں۔ چنانچہ انہوں اپنے لیے یہ شانِ امتیاز قائم کی کہ مُزْدلفہ تک جا کر ہی پلٹ آتے اور عام لوگوں کو عرفات تک جانے کے لیے چھوڑ دیتے تھے۔ پھر یہی امتیاز بنی خُز َاعہ اور بنی کِنَانہ اور اُن دُوسرے قبیلوں کو بھی حاصل ہو گیا ، جن کے ساتھ قریش کے شادی بیاہ کے رشتے تھے۔ آخر کار نوبت یہاں تک پہنچی کہ جو قبیلے قریش کے حلیف تھے، اُن کی شان بھی عام عربوں سے اُونچی ہو گئی اور انہوں نے بھی عرفات جانا چھوڑ دیا۔ اسی فخر و غرور کا بُت اس آیت میں توڑا گیا ہے ۔ آیت کا خطابِ خاص  قریش اور ان کے رشتے دار اور حلیف قبائل کی طرف ہے اور خطابِ عام اُن سب کی طرف ہے ، جو آئندہ کبھی اس قسم کے امتیازات اپنے لیے مخصُوص کرنا چاہیں۔ اُن کو حکم دیا جا رہا ہے کہ اَو رسب لوگ جہاں تک جاتے ہیں ، انھیں کے ساتھ جا ؤ ، اُنھیں کے ساتھ ٹھیرو، انھیں کے ساتھ پلٹو، اور اب تک جاہلیّت کے فخر و غرور کی بنا پر سنت ِ ابراہیمی کی جو خلاف ورزی تم کرتے رہے ہو، اس پر اللہ سے معافی مانگو۔