اس رکوع کو چھاپیں

سورة البقرة حاشیہ نمبر۲۰۴

یہاں فتنہ کا لفظ اُوپر کے معنی سے ذرا مختلف معنی میں استعمال ہوا ہے۔ سیاق و سباق سے صاف ظاہر ہے کہ اس مقام پر ” فتنے“ سے مراد وہ حالت ہے جس میں دین اللہ کے بجائے کسی اور کے لیے ہو، اور لڑائی کا مقصد یہ ہے کہ یہ فتنہ ختم ہو جائے اور دین صرف اللہ کے لیے ہو۔ پھر جب ہم لفظ”دین“ کی تحقیق کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عربی زبان میں دین کے معنی” اطاعت“ کے ہیں اور اصطلاحاً اس سے مراد وہ نظام ِ زندگی ہے جو کسی کو بالاتر مان کر اُس کے احکام و قوانین کی پیروی میں اختیار کیا جائے۔ پس دین کی اس تشریح سے یہ بات خود واضح ہو جاتی ہے کہ سوسائٹی کی وہ حالت ، جس میں بندوں پر بندوں کی خدائی و فرماں روائی قائم ہو، اور جس میں اللہ کے قانون کے مطابق زندگی بسر کرنا ممکن نہ رہے، فتنے کی حالت ہے اور اسلامی جنگ کا مِطمح نظر یہ ہے کہ اس فتنے کی جگہ ایسی حالت قائم ہو، جس میں بندے صرف قانونِ الہٰی کے مطیع بن کر رہیں۔