اس رکوع کو چھاپیں

سورة البقرة حاشیہ نمبر١۹۸

چاند کا گھٹنا بڑھنا ایک ایسا منظر ہے، جس نے ہر زمانے میں انسان کی توجہ کو اپنی طرف کھینچا ہے اور اس کے متعلق طرح طرح کے اوہام و تخیلات اور رسوم دُنیا کی قوموں میں رائج رہے ہیں اور اب تک رائج ہیں۔ اہلِ عرب میں بھی اس قسم کے اوہام موجود تھے۔ چاند سے اچھے یا بُرے شگون لینا، بعض تاریخوں کو سعد اور بعض کو نحس سمجھنا، کسی تاریخ کو سفر  کے لیے اور کسی کو ابتدائے کار کے لیے اور کسی کو شادی بیاہ کے لیے منحوس یا مسعود خیال کرنا اور یہ سمجھنا کہ چاند کے طلوع و غروب اور اس کی کمی بیشی اور  اس کی حرکت اور اس کے گہن کا کوئی اثر انسانی قسمتوں پر پڑتا ہے، یہ سب باتیں دُوسری جاہل   قوموں کی طرح اہلِ عرب میں بھی پائی جاتی تھیں اور اس سلسلے میں مختلف توہم پرستانہ رسمیں اُن میں رائج تھیں۔ انہی چیزوں کی حقیقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کی گئی۔ جواب میں اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ یہ گھٹتا بڑھتا چاند تمہارے لیے اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک قدرتی جنتری ہے ، جو آسمان پر نمودار ہو کر دُنیا بھر کے لوگوں کو بیک وقت ان کی تاریخوں کا حساب بتاتی رہتی ہے۔ حج کا ذکر خاص طور پر اس لیے فرما یا کہ عرب کی مذہبی، تمدّنی اور معاشی زندگی میں اس کی اہمیت سب سے بڑھ کر تھی۔ سال کے چار مہینے حج اور عمرے سے وابستہ تھے۔ اِن مہینوں میں لڑائیاں بند رہتیں، راستے محفوظ ہوتے اور امن کی وجہ سے کاروبار فروغ پاتے تھے۔