اس رکوع کو چھاپیں

سورة البقرة حاشیہ نمبر١۷۷

جاہلیت کے زمانے میں لوگوں کا طریقہ یہ تھا کہ ایک قوم یا قبیلے کے لوگ اپنے مقتول کے خون کو جتنا قیمتی سمجھتے تھے، اتنی ہی قیمت کا خُون اُس خاندان یا قبیلے یا قوم سے لینا چاہتے تھے  جس کے آدمی نے اُسے مارا ہو۔ محض مقتول کے بدلے میں قاتل کی جان لے لینے سے ان کا دل ٹھنڈا نہ ہوتا تھا۔ وہ اپنے ایک آدمی کا بدلہ بیسیوں اور سینکڑوں سے لینا چاہتے تھے۔ ان کا کوئی معزّز آدمی  اگر دُوسرے گروہ کے کسی چھوٹے آدمی کے ہاتھوں مارا گیا ہو، تو وہ اصلی قاتل کے قتل کو کافی نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان کی خواہش  یہ ہوتی تھی کہ قاتل کے قبیلے کا بھی کوئی ویسا ہی معزّز آدمی مارا جائے یا اُس کے کئی آدمی اُن کے مقتول پر سے صدقہ کیے جائیں۔ برعکس اس کے اگر مقتول اُن کی نگاہ میں کوئی ادنیٰ درجے کا شخص اور قاتل کوئی زیادہ قدر و عزّت رکھنے والا شخص ہوتا ، تو وہ اس بات کو گوارہ نہ کرتے تھے کہ مقتول کے بدلے میں قاتل کی جان لی جائے۔ اور یہ حالت کچھ قدیم جاہلیّت ہی میں نہ تھی۔ موجودہ زمانے میں جن قوموں کو انتہائی مہذّب سمجھا جاتا ہے ، اُن کے باقاعدہ سرکاری اعلانات تک میں بسا اوقات یہ بات بغیر کسی شرم کے دُنیا کو سُنائی جاتی ہے کہ ہمارا ایک آدمی مارا جائے گا تو ہم قاتل کی قوم کے پچاس آدمیوں کی جان لیں گے۔ اکثر یہ  خبریں ہمارے کان سُنتے ہیں کہ ایک شخص کے قتل پر مغلوب قوم کے اتنے یرغمالی گولی سے اُڑائے گئے۔ ایک”مہذّب“ قوم نے اِسی بیسویں صدی میں اپنے ایک فرد ”سرلی اسٹیک“ کے قتل کا بدلہ پوری مصری قوم سے لے کر چھوڑا ۔ دُوسری طرف اِن نام نہاد مہذب قوموں کی باضابطہ عدالتوں تک کا یہ طرزِ عمل رہا ہے کہ اگر قاتل حاکم قوم کا فرد ہو اور مقتول کا تعلق محکوم قوم سے ہو، تو ان کے جج قصاص کا فیصلہ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ یہی خرابیاں ہیں ، جن کے سدِ باب کا حکم اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دیا ہے۔  وہ فرماتا ہے کہ مقتول کے بدلے میں صرف قاتل ہی کی جان لی جائے قطع نظر اس سے کہ قاتل کون ہے اور مقتول کون۔