اس رکوع کو چھاپیں

سورة البقرة حاشیہ نمبر١۴٦

یہ ہے  وہ اصل حکم ، جو تحویلِ قبلہ کے بارے میں دیا گیا تھا۔ یہ حکم رجب یا شعبان ۲ ہجری میں نازل ہوا۔ ابن سعد کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  بِشْر بن بَراء بن مَعْرُور کے ہاں دعوت پر گئے ہوئے تھے۔ وہاں ظہر کا وقت آگیا اور آپ لوگوں کو نماز پڑھانے کھڑے ہوئے۔ دو رکعتیں پڑھا چکے تھے کہ تیسری رکعت میں یکایک وحی کے ذریعے سے یہ آیت نازل ہوئی اور اسی وقت آپ اور آپ  کی اقتدا میں جماعت کے تمام لوگ بیت المقدس سے کعبے کے رُخ پھر گئے۔ اس کے بعد مدینہ اور اطرافِ مدینہ میں اس کی عام منادی  کی گئی۔ بَراء بن عازِب کہتے ہیں کہ ایک جگہ منادی کی آواز اس حالت میں پہنچی کہ لوگ رکوع میں تھے۔ حکم سنتے ہی سب کے سب اسی حالت میں کعبے کی طرف مُڑ گئے۔ اَنس بن مالک کہتے ہیں کہ بنی سَلمَہ میں یہ اطلاع دُوسرے روز صبح کی نماز کے وقت پہنچی۔ لوگ ایک رکعت پڑھ چکے تھے کہ ان کے کانوں میں آواز پڑی: ”خبردار رہو، قبلہ بدل کی کعبے کی طرف کر دیا گیا ہے“۔ سنتے ہی پوری جماعت نے اپنا رُخ بدل دیا۔
خیال رہے کہ بیت المقدس مدینے سے عین شمال میں ہے اور کعبہ بالکل جنوب میں ۔ نماز باجماعت پڑھتے ہوئے قبلہ تبدیل کرنے میں لامحالہ امام کو چل کر مقتدیوں کے پیچھے آنا پڑا ہو گا اور مقتدیوں کو صرف رُخ ہی نہ بدلنا پڑا ہوگا ، بلکہ کچھ نہ کچھ انہیں بھی چل کر اپنی صفیں درست کرنی پڑی ہوں گی۔ چنانچہ بعض روایات میں یہی تفصیل مذکور بھی ہے۔
اور یہ جو فرمایا کہ” ہم تمہارے منہ کا بار بار آسمان کی طرف اُٹھنا دیکھ رہے ہیں “ اور یہ کہ” ہم اسی قبلے کی طرف تمہیں پھیرے دیتے ہیں، جسے تم پسند کرتے ہو“، اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ تحویلِ قبلہ کا حکم آنے سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اِس کے منتظر تھے۔ آپ خود یہ محسوس فرما رہے تھے کہ بنی اسرائیل کی امامت کا دَور ختم ہو چکا ہے اور اس کے ساتھ بیت المقدس کی مرکزیّت بھی رخصت ہوئی۔ اب اصل مرکزِ ابراہیمی کی طرف رُخ کرنے کا وقت آگیا ہے۔
مسجدِ حرام کے معنی ہیں حُرمت اور عزّت والی مسجد۔ اس سے مُراد وہ عبادت گاہ ہے، جس کے وسط میں خانہء کعبہ واقع ہے۔

کعبے کی طرف رُخ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی خواہ دُنیا کے کسی کونے میں ہو، اُسے بالکل ناک کی سیدھ میں کعبے کی طرف رُخ کرنا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ ایسا کرنا ہر وقت ہر شخص کے لیے ہر جگہ مشکِل ہے۔ اسی لیے کعبے کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، نہ کہ کعبے کی سیدھ میں۔ قرآن کی رُو سے ہم اس بات کے لیے ضرور مُکَلف ہیں کہ حتّی الامکان صحیح سَمْتِ کعبہ کی تحقیق کریں، مگر اس بات پر مُکَلف نہیں ہیں کہ ضرور بالکل ہی صحیح سَمْت معلوم کر لیں۔ جس سمت کے متعلق ہمیں امکانی تحقیق سے ظنِ غالب حاصل ہو جائے کہ یہ سَمْتِ کعبہ ہے، اُدھر نماز پڑھنا یقیناً صحیح ہے۔ اور اگر کہیں آدمی کے لیے سَمْتِ قبلہ کی تحقیق مشکل ہو ، یا وہ کسی ایسی حالت میں ہو کہ قبلے کی طرف اپنی سَمْت قائم نہ رکھ سکتا ہو (مثلاً ریل یا کشتی میں ) تو جس طرف اسے قبلے کا گمان ہو، یا جس طرف رُخ کرنا اس کے لیے ممکن ہو، اسی طرف وہ نماز پڑھ سکتا ہے۔ البتہ اگر دورانِ نماز میں صحیح سمت ِ قبلہ معلوم ہو جائے یا صحیح سَمْت کی طرف نماز پڑھنا ممکن ہو جائے ، تو نماز کی حالت ہی میں اس طرف پھر جانا چاہیے۔