اس رکوع کو چھاپیں

سورة البقرة حاشیہ نمبر١۴۵

یعنی اس سے مقصُود یہ دیکھنا تھا کہ کون لوگ ہیں جو جاہلیّت کے تعصّبات اور خاک و خون کی غلامی میں مبتلا ہیں، اور کون ہیں جو اِن بندشوں سے آزاد ہو کر حقائق کا صحیح ادراک کرتے ہیں۔ ایک طرف اہلِ عرب اپنے وطنی و نسلی فخر میں مبتلا تھے اور عرب کے کعبے کع چھوڑ کر باہر کے بیت المقدس کو قبلہ بنانا ان کی اِس قوم پرستی کے بُت پر ناقابلِ برداشت ضرب تھا۔ دُوسری طرف بنی اسرائیل اپنی نسل پرستی کے غرور میں پھنسے ہوئے تھے اور اپنے آبائی قبلے کے سوا کسی دُوسرے قبلے کو  برداشت کرنا ان کے لیے محال تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ بُت جن لوگوں کے دلوں میں بسے ہوئے ہوں، وہ اُس راستے پر کیسے چل سکتے تھے، جس کی طرف اللہ کا رسُول انہیں بُلا رہا تھا۔ اس لیے اللہ نے ان بُت پرستوں کو سچّے حق پرستوں سے الگ چھانٹ دینے کے لیے پہلے بیت المقدس کو قبلہ مقرر کیا تاکہ جو لوگ عربیّت کے بُت کی پرستش کرتے ہیں، وہ الگ ہو جائیں۔ پھر اس قبلے کو چھوڑ کر کعبے کو قبلہ بنایا تاکہ جو اسرائیلیت کے پرستار ہیں، وہ بھی الگ ہو جاءیں۔ اِس طرح صرف وہ لوگ رسُول کے ساتھ رہ گئے، جو کسی بُت کے پرستار نہ تھے، محض خدا کے پرستار تھے۔