اس رکوع کو چھاپیں

سورة البقرة حاشیہ نمبر١۲۳

یہاں سے ایک دُوسرا سلسلہ ء تقریر شروع ہو تا ہے، جسے سمجھنے کے لیے حسبِ ذیل اُمور کو اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہیے:
(۱)حضرت نوح ؑ کے بعد حضرت ابراہیم ؑ پہلے نبی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی عالمگیر دعوت پھیلانے کے لیے مقرر کیا تھا۔ انہوں نے پہلے خود عراق سے مصر تک اور شام و فلسطین سے ریگستانِ عرب کے مختلف گوشوں تک برسوں گشت لگا کر اللہ کی اطاعت و فرماں برداری (یعنی اسلام) کی طرف لوگوں کو دعوت دی۔ پھر اپنے اس مِشن کی اشاعت کے لیے مختلف علاقوں میں خلیفہ مقرر کیے۔ شرق اُردن میں اپنے بھتیجے حضرت لُوط ؑ کو ، شام و فلسطین میں اپنے بیٹے اسحاق ؑ کو، اور اندرُونِ عرب میں اپنے بڑے بیٹے حضرت اسمٰعیل ؑ  کو مامور کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے مکّے میں وہ گھر تعمیر کیا ، جس کا نام کعبہ ہے اور اللہ ہی کے حکم سے وہ ا س مِشن کا مرکز قرار پایا۔
(۲)حضرت ابراہیم ؑ کی نسل سے دو بڑی شاخیں نکلیں: ایک حضرت اسماعیل ؑ کی اولاد  جو عرب میں رہی۔ قریش اور عرب کے بعض دُوسرے قبائل کا تعلق اسی شاخ سے تھا۔ اور جو عرب قبیلے نسلاً حضرت اسماعیل ؑ کی اولاد نہ تھے وہ بھی چونکہ اُن کے پھیلائے ہوئے مذہب سے کم و بیش متاثر تھے، اس لیے وہ اپنا سلسلہ انہی سے جوڑتے تھے۔ دُوسرے حضرت اسحاق ؑ کی اولاد، جن میں حضرات یعقوب ؑ ، یوسف ؑ ، موسیٰ  ؑ ، دا ؤد  ؑ ، سلیمان ؑ ، یحییٰ   ؑ ، عیسیٰ ؑ اور بہت سے انبیا علیہم السّلام پیدا ہوئے اور جیسا کہ پہلے بیان کیا  جا چکا ہے، حضرت یعقوب ؑ کا نام چونکہ اسرائیل تھا اس لیے یہ نسل بنی اسرائیل کے نام سے مشہور ہوئی۔ اُن کی تبلیغ سے جن دُوسری قوموں نے اُن کا دین قبول کیا، انہوں نے یا تو اپنی انفرادیّت ہی اُن کے اندر گم کر دی، یا وہ نسلاً تو اُن سے الگ رہے ، مگر مذہباً اِن کے متِبع رہے۔ اسی شاخ میں جب پستی و تنزّل کا دَور آیا، تو پہلے یہُودیّت پیدا ہوئی اور پھر عیسائیت نے جنم لیا۔
(۳)حضرت ابراہیم ؑ کا اصل کام دُنیا کو اللہ   کی اطاعت کی طرف بُلانا  اور اللہ کی رف سے آئی ہوئی ہدایت کے مطابق انسانوں کی انفرادی و اجتماعی زندگی کا نظا م درست کرنا تھا۔ وہ خود اللہ کے مطیع تھے، اس کے دیے ہوئے علم کی پیروی کرتے تھے، دنیا میں اُس علم کو پھیلاتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ سب اِنسان مالکِ کائنات کے مطیع ہو کر رہیں۔ یہی خدمت تھی، جس کے لیے وہ دُنیا کے امام و پیشوا بنائے گئے تھے۔ اُن کے بعد یہ امامت کا منصب اُں کی نسل کی اُس شاخ کو مِلا، جو حضرت اسحاق ؑ  اور حضرت یعقوب ؑ سے چلی اور بنی اسرائیل کہلائی۔ اسی میں انبیا پیا ہوتے رہے، اسی کو راہِ راست کا علم دیا گیا، اسی کے سپر د یہ خدمت کی گئی کہ اس راہِ راست کی طرف اقوامِ عالم کی رہنمائی کرے، اور یہی وہ نعمت تھی، جسے اللہ تعالیٰ بار بار اس نسل کے لوگوں کو یاد دلا رہا ہے۔ اس شاخ نے حضرت سلیمان ؑ کے زمانے میں بیت المَقْدِس کو اپنا مرکز قرار دیا۔ اس لیے جب تک یہ شاخ امامت کے منصب پر قائم رہی ، بیت المقدس ہی دعوت اِلی اللہ کا مرکز اور خدا پرستوں کا قبلہ رہا۔
(۴)پچھلے دس رکوعوں میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو خطاب کر کے اُن کی تاریخی فردِ قرار دادِ جُرم اور ان کی وہ موجودہ حالت، جو نزولِ قرآن کے وقت تھی، بے کم و کاست پیش کر دی ہے اور ان کو بتا دیا ہے کہ تم ہماری اُس نعمت کی انتہائی ناقدری کر چکے ہو جو ہم نے تمہیں دی تھی۔ تم نے صرف یہی نہیں کیا کہ منصبِ امامت کا حق ادا کرنا چھوڑ دیا ، بلکہ خود بھی حق اور راستی سے پھر گئے، اور اب ایک نہایت قلیل عنصرِ صالح کے سوا تمہاری پُوری اُمت میں کوئی صلاحیّت باقی نہیں رہی ہے۔
(۵)اس کے بعد اب انھیں بتایا جا رہا ہے کہ امامت ِ ابراہیم ؑ کے نُطفے کی میراث نہیں ہے بلکہ یہ اس سچّی اطاعت و فرماں برداری کا پھل ہے ، جس میں ہمارے اُن بندے نے اپنی ہستی کو گم کر دیا تھا، اور اس کے مستحق صرف وہ لوگ ہیں ، جو ابراہیم ؑ کے طریقے پر خود چلیں اور دُنیا کو اس طریقے پر چلانے کی خدمت انجام دیں۔ چونکہ تم اس طریقے سے ہٹ گئے ہو  اور اس خدمت کی اہلیّت پُوری طرح کھو چکے ہو، لہٰذا تمہیں امامت کے منصب سے معزُول کیا جا تا ہے۔
(۶)ساتھ ہی اشاروں اشاروں میں یہ بھی بتا دیا جاتا ہے کہ جو غیر اسرائیلی قومیں موسیٰ  اور عیسیٰ علیہماالسّلام کے واسطے سے حضرت ابراہیم ؑ کے ساتھ اپنے تعلق پر فخر کرتے ہیں، محض نس و نسب کے فخر کو لیے بیٹھے ہیں۔ ورنہ ابراہیم ؑ و اسماعیل ؑ کے طریقے سے اب ان کو دُور کا واسطہ بھی نہیں رہا ہے۔ لہٰذا ان میں سے بھی کوئی امامت کا مستحق نہیں ہے۔
(۷)پھر یہ بات ارشاد ہوتی ہے کہ اب ہم نے ابراہیم ؑ کی دُوسری شاخ، بنی اسماعیل  ؑ میں و ہ رسُول ؐ پیدا کیا ہے ، جس کے لیے ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ نے دُعا کی تھی۔ اس کا طریقہ وہی ہے ، جو ابراہیم ؑ ، اسماعیل ؑ ، اسحاق ؑ ، یعقوب ؑ  اور دُوسرے تمام انبیا کا تھا۔ وہ اور اس کے پریو تمام ان پیغمبروں کی تصدیق کرتے ہیں جو دنیا میں خدا کی طرف سے آئے ہیں اور اسی راستہ کی طرف دُنیا کو بُلاتے ہیں جس کی طرف سارے انبیا دعوت دیتے چلے آئے ہیں۔ لہٰذا اب امامت کے مستحق صرف وہ لوگ ہیں جو اس رسول کی پیروی کریں۔

(۸)تبدیل ِ امامت کا اعلان ہونے کے ساتھ ہی قدرتی طور پر تحویلِ قبلہ کا اعلان ہونا بھی ضروری تھا۔ جب تک بنی اسرائیل کی امامت کا دَور تھا، بیت المقدس مرکزِ دعوت رہا اور وہی قبلہء اہلِ حق بھی رہا۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے پیرو بھی اس وقت تک بیت المقدس ہی کو قبلہ بنائے رہے۔ مگر جب بنی اسرائیل اس منصب سے باضابطہ معزُول کر دیے گئے، تو بیت المقدس کی مرکزیّت آپ سے آپ ختم ہو گئی۔ لہٰذا اعلان کیا گیا کہ اب وہ مقام دینِ الہٰی کا مرکز ہے، جہاں سے اِس رسُول کی دعوت کا ظہُور ہوا ہے۔ اور چونکہ ابتدا میں ابراہیم ؑ کی دعوت کا مرکز بھی یہی مقام تھا، اس لیے اہلِ کتاب اور مشرکین ، کسی کے لیے بھی تسلیم کرنے کے سوا چارہ نہیں ہے کہ قبلہ ہونے کا زیادہ حق کعبے ہی کو پہنچتا ہے۔ ہٹ دھرمی کی بات دُوسری ہے کہ وہ حق کو حق جانتے ہوئے بھی اعتراض کیے چلے جائیں۔