اس رکوع کو چھاپیں

سورة البقرة حاشیہ نمبر١۰۸

 یہُودی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آتے، تو اپنے سلام اور کلام میں ہر ممکن طریقے سے اپنے دل کا بخار نکالنے کی کوشش کرتے تھے۔ ذُو معنی الفاظ بولتے، زور سے کچھ کہتے اور زیرِ لب کچھ اور کہہ دیتے، اور ظاہری ادب آداب برقرار رکھتے ہوئے درپردہ آپ کی توہین کرنے میں کوئی دقیقہ اُٹھا نہ رکھتے تھے۔ قرآن میں آگے چل کر اس کی متعدد مثالیں بیان کی گئی ہیں۔ یہاں جس خاص لفظ کے استعمال سے مسلمانوں کو روکا گیا ہے، یہ ایک ذُومعنی لفظ تھا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو کے دَوران میں یہُودیوں کو کبھی یہ کہنے کی ضرورت پیش آتی کہ ٹھیریے، ذرا ہمیں یہ بات سمجھ لینے دیجیے، تو وہ رَاعِنَا  کہتے تھے۔اس لفظ کا ظاہری مفہوم تو یہ تھا کہ ذرا ہماری رعایت یہ کیجیے یا ہماری بات سُن لیجیے۔ مگر اس میں کئی احتمالات اور بھی تھے۔ مثلاً عبرانی میں اس سے مِلتا جُلتا ایک لفظ تھا، جس کے معنی تھے”سُن، تُو بہرا ہو جائے “۔ اور خُود عربی میں اس کے ایک معنی صاحبِ رعونت اور جاہل و احمق کے بھی تھے۔ اور گفتگو میں یہ ایسے موقع پر بھی بولا جاتا تھا جب یہ کہنا ہو کہ تم ہماری سُنو، تو ہم تمہاری سُنیں۔ اور ذرا زبان کو لچکا دے کر رَاعِیْنَا بھی بنا لیا جاتا تھا، جس کے معنی ”اے ہمارے چرواہے“ کے تھے۔ اس لیے مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ تم اس لفظ کے استعمال سے پرہیز کرو اور اس کے  بجائے   اُ نْظُرْ نَا کہا کرو۔یعنی ہماری طرف توجہ فرمائیے یا ذرا ہمیں سمجھ لینے دیجیے۔ پھر فرمایا کہ ”توجّہ سے بات کو سُنو“، یعنی یہُودیوں کو تو بار بار یہ کہنے کی ضرورت اس لیے پیش آتی ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پر توجّہ نہیں کرتے اور ان کی تقریر کے دَوران میں وہ اپنے ہی خیالات میں اُلجھے رہتے ہیں ، مگر تمہیں غور سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سننی چاہییں تاکہ یہ کہنے کی ضرورت ہی نہ پیش آئے۔