اس رکوع کو چھاپیں

سورة البقرة حاشیہ نمبر١۰٦

مطلب یہ ہے کہ اس منڈی میں سب سے زیادہ جس چیز کی مانگ تھی وہ یہ تھی کہ کوئی ایسا عمل یا تعویذ مِل جائے جس سے ایک آدمی دُوسرے کی بیوی کو اس سے توڑ کر اپنے اوپر عاشق کر لے۔ یہ اخلاقی زوال کا وہ انتہائی درجہ تھا، جس میں وہ لوگ مبتلا ہو چکے تھے۔ پست اخلاقی کا اس سے زیادہ نیچا مرتبہ اور کوئی نہیں ہو سکتا کہ ایک قوم کے افراد کا سب سے زیادہ دلچسپ مشغلہ پرائی عورتوں سے آنکھ لڑانا ہو جائے اور کسی منکوحہ عورت کو اس کے شوہر سے توڑ کر اپنا کر لینے کو وہ اپنی سب سے بڑی فتح سمجھنے لگیں۔

                ازدواجی تعلق در حقیقت انسانی تمدّن کی جڑ ہے۔ عورت اور مرد کے تعلق کی درستی پر پورے انسانی تمدّن کی درستی کا  اور اس کی خرابی پر پورے انسانی تمدّن کی خرابی کا مدا ر ہے۔ لہٰذا وہ شخص بدترین مُفْسِد ہے جو اُس  درخت کی جڑ پر تیشہ چلاتا ہو جس کے قیام پر خود اُس کا اور پوری سوسائٹی کا قیام منحصر ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ابلیس اپنے مرکز سے زمین کے ہر گوشے میں اپنے ایجنٹ روانہ کرتا ہے ۔ پھر وہ ایجنٹ واپس آکر اپنی اپنی کارروائیاں سُناتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے : میں نے فلاں شر کھڑا کیا۔ مگر ابلیس ہر ایک سے کہتا جاتا ہے کہ تُو نے کچھ نہ کیا۔ پھر ایک آتا ہے اور اطلاع دیتا ہے کہ میں ایک عورت اور اس کے شوہر میں جُدائی ڈال آیا ہوں۔ یہ سُن کر ابلیس اس کو گلے لگا لیتا ہے اور کہتا ہے کہ تُو کام کر کے آیا ہے۔ اس حدیث پر غور کرنے سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے کہ بنی اسرائیل کی آزمائش کو جو فرشتے بھیجے گئے تھے، انہیں کیوں حکم دیا گیا کہ عورت اور مرد کے درمیان جدائی ڈالنے کا ”عمل“ ان کے سامنے پیش کریں۔ دراصل یہی ایک ایسا پیمانہ تھا جس سے ان کے اخلاقی زوال کو ٹھیک ٹھیک ناپا جا سکتا تھا۔