اس رکوع کو چھاپیں

سورة البقرة حاشیہ نمبر١۰۴

شیاطین سے مراد شیاطینِ جِنّ اور شیاطینِ اِنس دونوں ہوسکتے ہیں اور دونوں ہی یہاں مراد ہیں۔ جب بنی اسرائیل پر اخلاقی ہ مادّی انحطاط کا دَور آیا اور غلامی، جہالت، نَکبَت و اِفلاس اور ذِلَّت و پستی نے ان کے اندر کوئی بلند حوصلگی و اُولواالعزمی نہ چھوڑی، تو ان کی توجہّات جادُو ٹونے اور طلسمات و ”عملیات“ اور تعویذ گنڈوں کی طرف مبذول ہونے لگیں۔وہ تو ایسی تدبیریں ڈھونڈنے لگے، جن سے کسی مشَقّت اور جدّوجہد کے بغیر محض پُھونکوں اور منتروں کے زور پر سارے کام بن جایا کریں۔ اس وقت شیاطین نے ان کو بہکانا شروع کیا کہ سلیمان ؑ کی عظیم الشان سلطنت اور ان کی حیرت انگیز طاقتیں تو سب کچھ چند نقوش اور منتروں کا نتیجہ تھیں، اور وہ ہم تمہیں بتائے دیتے ہیں۔ چنانچہ یہ لوگ نعمت غیر مترقبہ سمجھ کر اِن چیزوں پر ٹوٹ پڑے اور پھر نہ کتاب اللہ سے ان کو کوئی دلچسپی رہی اور نہ کسی داعی حق کی آواز انہوں نے سُن کردی۔