اس رکوع کو چھاپیں

سورة البقرة حاشیہ نمبر١

یہ حُرُوف ِ مُقَطعَات قرآن مجید کی بعض سُورتوں کے آغاز میں پائے جاتے ہیں ۔ جس زمانے میں قرآن مجید نازل ہوا ہے اُس دَور کے اسالیبِ بیان میں اس طرح کے حُرُوف ی مُقطعات کا استعمال عام طور پر معروف تھا۔ خطیب اور شعراء دونوں اِس اُسْلوب سے کام لیتے تھے۔ چنانچہ اب بھی کلامِ جاہلیّت کے جو نمونے محفوظ ہیں ان میں اس کی مثالیں ہمیں ملتی ہیں۔ اِس استعمال عام کی وجہ سے یہ مُقطعات کوئی چیستا ں نہ تھےجس کو بولنے والے کے سوا کوئی نہ سمجھتا ہو، بلکہ سامعین بالعموم جانتے تھے کہ ان سے مراد کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کے خلاف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم عصر مخالفین میں سے کسی بے بھی یہ اعتراض کبھی نہیں کیا  کہ یہ بے معنی حرُوف کیسے ہیں جو تم بعض سُورتوں کی ابتداء میں بولتے ہو۔ اور یہی وجہ ہے کہ صحابہء کرام سے بھی ایسی کوئی روایت منقول نہیں ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے معنی پوچھے ہوں۔ بعد میں اُسلوب عربی زبان میں متروک ہوتا چلا گیا اور اس بنا پر مفسّرین کے لیے ان کے معانی متعیّن کرنا مشکل ہوگیا۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ نہ تو ان حُرُوف کا مفہُوم سمجھنے پر قرآن سے ہدایت حاصل کرنے کا انحصار ہے ۔ اور نہ یہی بات ہے کہ اگر کوئی شخص ان کے معنی نہ جانے گا تو اس کے راہِ راست پانے میں کوئی نقص رہ جائے گا۔ لہٰذا ایک عام ناظر کے لیے کچھ ضروری نہیں ہے کہ وہ ان کی تحقیق میں سرگرداں ہو۔